ہمدردان قوم وملت!
آج امت مسلمہ جس نازک دور سے گذررہی ہے وہ سرکاری وغیر سرکاری طور پر روز روشن کی طرح عیاں ہے کس طرح یہ امت سسک رہی ہے، اسے اہل دل اور امت کا درد رکھنے والے افراد ہی محسوس کر سکتے ہیں۔اس پرفتن دور میں مسلمانوں کی اجتماعی و انفرادی خدمات کی اشد ضرورت ہے اور خدمت کرنے والے افراد کی حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے۔
لہٰذااجتماعی وانفرادی اعتبار سے انسانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہرقول و فعل سے تمام انسانیت کی رعایت کر یں۔ اس کے بارے میں اپنے دل میں خیر خواہی کا جذ بہ رکھیں، اسے ہر بھلائی کی راہ دکھائیں اور برائی سے روکیں۔ یہ بات تمام مذہب وملت میں اہمیت کی حامل ہے اور خیر خواہی کے عمل پر بشارتیں بھی خوب آئی ہیں۔ یہ ذمہ داری ضرورت مندوں کے اعتبار سے کبھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
پریشان حال کی پریشانی کے پیش نظر اسے زیادہ سے زیادہ اپنانے کی تلقین کی جاتی ہے۔ انسانوں سے انسانیت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وہ طبقہ جو بہت زیادہ پریشان مفلوک الحال اور تنگ دست ہے اس کی خوب مدد کی جائے تا کہ اس کی زندگی بھی کسی لائق ہو جائے۔ اس کا معیار بھی کچھ بلند ہو جائے اور اسے بھی دنیا وآخرت کی سرخروئی حاصل ہو جائے اور جو بچے حالات سے مجبور ہو کر تعلیم سے دور ہو جاتے ہیں انہیں بھی زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے تا کہ وہ سماج میں اپنا مقام پہنچانتے ہوئے باوقار زندگی بسر کرسکے۔
ہندوستان کے صوبۂ بہار کی جوصورت حال ہے وہ جگ ظاہر ہے، مختلف سرکاری رپورٹوں کے مطابق ایک بڑا طبقہ خط افلاس سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔ جس فطرت پر اللہ نے پیدا کیا تھا جہالت کی بنا پر اس فطرت یعنی فطرت اسلام سے انسان کوسوں دور ہوکر اس دار فانی سے کوچ کر جا تا ہے۔ اب آپ ہی خوداپنے دل پر ہاتھ رکھیں اور کچھ لمحہ کے لیے سوچیں کہ جنہوں نے اپنی زندگی فطرت سے دور رہ کر گذاری ہو، ان کی آنے والی نسل کا مستقبل کیسا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ والدین کی جہالت کے ساتھ اس کے پورے خاندان، معاشرہ، تہذیب وتمدن سب رو بزوال ہیں، اسی بناء پر دیگر صوبوں کی بہ نسبت صوبۂ بہار میں تعلیمی ماحول نہ کے برابر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کل مولود یولد علی الفطرۃ فأبواہ یھوّدانہ أو ینصّرانہ أو یمجّسانہ۔ (ترجمہ: تمام بچے فطرت اسلام پر پیدا ہوتے ہیں پھران کے والدین ان کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ والد ین کی زندگی کا اثر بچوں پر کتنا پڑ تا ہے، نا خواندہ والدین اپنے معصوم بچوں کو کہاں سے کہاں تک لے جاتے ہیں۔
یہاں کی پوری انسانیت اپنے کسی ایسے ہمدرد، مونس وغمگسار کی متلاشی ہے جو اسے اس کے پریشان کن معاملات سے آزاد کرے، اسے راہِ راست کی راہنمائی کرے، اس کی دینی اور دنیوی ضرورتوں کو پوری کرے ۔ کوئی خدا کا بندہ آئے اور جفاکشی سے کام لے اور ضلالت و گمراہی کو دور کر نے کیلئے چراغ روشن کرے اور کوئی باہمت شخصیت رونما ہو جومحتاجوں اور پر یشان حالوں کو ہر طرح کے سکون و آرام سے ہمکنار کرے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ شمالی بہار کے ضلع سمستی پور سے شمال کی جانب تقر یباً بیس کیلومیٹر دوری پر ایک بستی کرھوا برہیتا واقع ہے۔ یہاں اور اس کے اطراف ومضافات میں علم دین کی کمی اور جہالت وضلالت، بدعات وخرافات اور باطل افکار ونظریات کی گھٹاٹوپ تار یکی چھائی ہوئی ہے خاص کرفرقۂ قادیانیت کی یلغار ہے، جس کی بناپر پورا علاقہ باطل افکار وخیالات میں ملوث ہے۔ سماج میں بہت ساری ناز یبا رسم ورواج پھیلی ہوئی ہے جو دینی امور کی طرح لوگوں کے دلوں میں سمایا ہوا ہے جسے ختم کر نا مشکل ترین امر ہے اور حالت یہ ہے کہ راہِ حق، نہج صحیح اور سنت نبوی کی رہنمائی کرنے والا ایک بھی ادارہ پورے علاقے میں نہیں ہے۔ انہی حالات کے مدنظر ملت اسلامیہ کی بقا وتر قی اور نئی نسل کی صحیح تعلیم وتربیت کے لئے صحیح خطوط پر ایک بنیادی اور اہم دینی ادارہ کی ضرورت تھی تا کہ نئی نسل قرآن وسنت کا گہراعلم، وسیع فہم، عمیق دینی بصیرت اور داعیانہ اوصاف کے ساتھ جدید عصری علوم سے آراستہ ہو کر باطل افکار ونظریات کے مقابلہ میں اسلام کا دفاع کر سکے۔ چنانچہ اسی احساس کے تحت علماء حق اور امت کا درد ر کھنے والے اہل دل کے مشورے سے نا مساعد حالات کے باوجود ۲۰۰۹ ء میں الامدادایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کی بنیادرکھی گئی۔ یہ ایک رجسٹر ڈ ادارہ ہے جو بحسن وخوبی ملی، رفاہی اور اجتماعی خدمات انجام دے رہا ہے۔ یہ ادارہ دیہی بستیوں میں مکاتب کے قیام پر زور دیتا ہے۔ قدرتی آفات کے موقع پر ریلیف کا کام، مروجہ رسم ورواج کو دور کر نے کے لیے اصلاح معاشرہ کا پروگرام، علاج ومعالجہ کی استطاعت نہ رکھنے والے بیماروں کی طبی امداد اور غریب و نادار بچیوں کی شادی کانظم بھی کرتا ہے۔نئی نسل میں تعلیم کوفروغ دینا طلباء، بیوگان اور تنگ دست و مفلوک الحال لوگوں کے درمیان وظائف کی تقسیم ادارے کا اہم مقصد ہے۔ مذکورہ ٹرسٹ کے ذریعہ بائیس (۲۲) دیگر مکا تب کے ساتھ ساتھ کرھوا کی سرزمین پر ایک اقامتی ادارہ بنام جامعہ اشاعت العلوم سمستی پور جس کی بنیا د ۱۵؍ دسمبر ۲۰۰۵ء کو رکھی گئی تھی مضافات میں پھیلی ہوئی ضلالت و گمراہی، بدعات وخرافات اور رسم ورواج کو دور کرنے کے لیے رشد و ہدایت کی روشنی بکھیر رہا ہے۔ جس میں طالبان علوم نبویہ کی کثرت کے پیش نظر فوری تعمیری کام نہایت ضروری ہے۔ نیز ادارے کی کوئی مستقل آمدنی نہیں ہے تمام اخراجات اہلِ خیر حضرات کے تعاون سے ہی پورے کئے جاتے ہیں۔
آج کل گرانی کا زمانہ ہے دینی ادارے اور مدارس عربیہ کے لیے بڑی آزمائش ہے ۔ جب تک اہل خیر حضرات توجہ نہ دیں یہ اجتماعی کام ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا درد مندان ملت سے اپیل ہے کہ وہ اس کا بھر پور تعاون کریں تا کہ ادارہ ترقی کی منزلوں کو طے کرے اور بہتر طور پر اپنی رفاہی،تعلیمی، اشاعتی، تعمیری اور اصلاحی سرگرمیوں کو جاری رکھے۔اس طرح ٹرسٹ کے تحت چلنے والے رفاہی، اجتماعی اور دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر اپنی حمیت اور قومی بیداری کا ثبوت دیں۔